
وائیجر ون
آج سے کوئی نصف صدی پہلے کی بات ہے۔۔۔
کہ جب امیرکہ نے اپنا ایک خلائی جہاز ۔۔۔ دور دراز کی خلاؤں میں اس طرح سے بھیجا کہ اب اس نے کبھی واپس ۔۔۔نہیں آنا ۔
اس جہاز کا نام تھا وائیجر ون اور آج یہ جہاز ہم سے دور ۔۔۔ بہت دور جا چکا ہے ۔اس جہاز پر ہماری دنیا کی نمائیندگی کرنے والی کچھ چیزیں بھی رکھی گئی تھیں مثلاً ۔۔۔بچوں کے ہنسنے کی آواز ، عورت کے گنگنانے کی آواز ، مختلف مذاہب کی آیات اور ان کی تلاوتیں ، مختلف زبانوں میں کہا گیا سلام ، چند جانوروں کی تصویریں اور آوازیں اور بہت بہت کچھ اور بھی لیکن ۔۔۔
پھر اس سب کے علاوہ ہماری دنیا تک پہنچنے کا خلائی راستہ ۔۔۔
اور امیرکہ کے تب کے کے صدر جمی کارٹر کی طرف سے لکھا ایک خط بھی کہ جس میں لکھا تھا۔۔۔
’’کہ ہم ۔۔ چار ارب آبادی والے ایک سیارے کے باشندے ہیں ۔ ہم آج بھی مختلف ممالک میں بٹے ہوئے ہیں لیکن دھیرے دھیرے ہماری دنیا ۔۔۔ سکڑتی چلی جا رہی ہے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ شاید یہ پیغام اس کائینات میں کبھی کسی کو مل جائے اور اگر ایسا ہو ۔۔۔
اور وہ اس پیغام کو سمجھ لے ۔۔۔
تو جان لے کہ یہ ہماری طرف سے اسے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے ، ہماری آوازوں ، ہمارے احساسات اور ہماری امیدوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے‘‘اس وقت وائیجر ون یہ پیغام لیے ہم سے کوئی چوبیس ارب کلومیٹر دور جا چکا ہے اور اب اس نے کبھی واپس نہیں آنا ۔ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ کبھی کسی کو ملے گا بھی یا نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تک ہمارا یہ پیغام کسی کو ملے تب تک ۔۔۔
ہماری دنیا کب کی ختم ہو چکی ہو ، اس کائینات سے ہمارا نام و نشان تک مٹ چکا ہو ۔کہنے کو تو یہ پیغام ایک بہت بہت خوبصورت تحفہ ہے لیکن ۔۔۔
امیجن کریں کہ اُس وقت اُس کے کیا احساسات ہوں گے کہ اگر کبھی کسی کو یہ پیغام مل گیا تو ۔۔۔یا پھر امیجن کریں کہ اگر ہمیں بھی کبھی دور دراز کی گہری خلاء سے ایسا کوئی پیغام مل گیا تو ۔۔۔
امیجن کریں کہ اس وقت ہمارے کیا احساسات ہوں گے ؟ذہن میں اٹھنے والے ہزاروں سوالات ۔۔۔ اور عجیب سی بے چینی کے ساتھ چھا جانے والی ۔۔۔ مکمل خاموشی ۔