
ہامہ جن
اس وقت ہمارے ساتھ ساتھ ۔۔۔ ایک ایسی دنیا بھی آباد ہے کہ جس کے متعلق تقریباً ۔۔۔
ہمیں کچھ پتہ نہیں ۔لیکن جتنا بھی پتہ ہے وہ ۔۔۔ کسی صورت غیر معمولی سے کم نہیں ۔یہ پوسٹ آپ کے لیے بہت دلچسپ ہو سکتی ہے اگر ۔۔۔
آپ کو ان غیر معمولی دنیاؤں کے متعلق جاننے کی جستجو ہے ۔اور ان غیر معمولی دنیاؤں کے متعلق جاننے کے لیے ہمیں ۔۔۔ سیکھنا بھی پھر غیر معمولی لوگوں سے ہی ہو گا ۔اور ان غیر معمولی لوگوں میں سے ایک شخص کا نام ہے إمام جلال الدّین السیوطیؒ ۔ سنہ 1445ء میں پیدا ہوئے ایک عظیم مصری سکالر ۔آپ کو پتہ ہے کہ إمام سیوطی کو لوگ کیا کہہ کر بلاتے تھے ؟ ۔۔۔
إبن الکتب ، یعنی کتابوں کا بیٹا اور ایسا کیوں ؟ ۔۔۔
اس کی بیسکلی دو وجوہات تھیں ۔ایک تو یہ کہ ایک مرتبہ جلال الدین کی والدہ نے اپنے شوہر کو ۔۔۔ تحفہ دینے کے لیے کچھ کتابیں اکٹھی کرنا شروع کیں لیکن انہی دنوں ۔۔۔
جلال الدین کی پیدائش کے بھی آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ۔تو ان کے گھر والے پیار سے کہا کرتے تھے کہ جلال الدین ! تم کتابوں کے بیٹے ہو ۔اور دوسرا یہ کہ اپنی کتاب حسن المحاضرہ میں امام سیوطی بتاتے ہیں کہ جب میں حج کرنے کے لیے گیا ۔۔۔
تو آب زمزم پیتے ہوئے میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ !مجھے علامہ بلقینی جیسا فقہ ۔۔۔
اور عسقلانی جیسا حدیث کا علم دے دے اور شاید اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا ۔۔۔ قبول فرما لی ۔آٹھ سال کی عمر میں قرآن کے حافظ ۔۔۔ دو لاکھ سے زیادہ حدیثوں کے حافظ جن کے متعلق بتاتے ہیں کہ اگر ان سے زیادہ حدیثیں ملتیں تو میں انہیں بھی یاد کر لیتا لیکن اس سے زیادہ مل نہیں رہی تھیں ۔پھر پانچ سو کتابیں جن میں سے بعض اوقات تو ایک ایک کتاب دس دس جلدوں کی ہے ۔ اور ان میں ایسے ایسے واقعات لکھے ہیں کہ انسان پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے ۔مثلاً تاریخ الخلفاء میں امام سیوطی بتاتے ہیں کہ مصر میں ، ایک ایسا عجیب قحط آیا کہ ویسا شاید آخری بار حضرت یوسفؑ کے دور میں ہی آیا ہو گا ۔ایک ایک روٹی پچاس پچاس دینار کی ہو گئی اور امام لکھتے ہیں کہ کچھ لوگ مردار تک کھانے لگ گئے ہیں ۔ پھر بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایسی عورت کو جانتے ہیں کہ جس نے ایک خمیری روٹی کی قیمت ۔۔۔
ہزار دینار ادا کی ہے ۔پھر ایک موقع پر آپ نے ایک اور عجیب واقعہ بیان کیا کہ 323 ہجری میں عصر سے مغرب تک اچانک ۔۔۔ ایک عجیب اندھیرا چھا گیا اور ساری رات اتنے بڑے بڑے شہاب ثاقب گرتے رہے کہ لوگوں نے پہلے کبھی ۔۔۔ ایسے شہابیئے نہیں دیکھے ہوں گے اور انہیں لگا ۔۔۔ کہ شاید قیامت آ گئی ہے ۔لیکن ہمارے پیرالیل میں آباد جنات کی دنیا کے بارے میں ایک انتہائی عجیب و غریب واقعہ ۔۔۔
إمام سیوطی نے اپنی کتاب ’’لقط المرجان فی الاحکام الجان‘‘ میں لکھا ہے اور کہ جو ان فیکٹ ۔۔۔ ایک حدیث نبویؐ ہے ۔بائی دا ویز سائیڈ نوٹ ۔۔۔ کہ یہ واقعہ إمام عقیلی کی کتاب الضعفاء اور أبو نعیم والی دلائل النبوۃ میں بھی ہے ، یہ میں آپ کو ایک سیکنڈ ریفرنس کے طور پر بتا رہا ہوں کیوں کہ یہ واقعہ ہے ہی اتنا عجیب ۔عمر بن خطابؓ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ۔۔۔ ہم نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے ساتھ تہامہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر بیٹھے تھے کہ ایک انتہائی ضعیف بوڑھا آدمی ۔۔۔
نبیؐ کے پاس آیا ۔ آپ کو سلام کیا اور وہیں بیٹھ گیا ۔آپؐ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرا نام ہامہ ہے ۔ اور میرے اور ابلیس کے درمیان ۔۔۔
بہ مشکل دو ہی پشتیں گزری ہیں ۔نبیؐ نے پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے ؟اس نے کہا کہ یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن اتنا مجھے یاد ہے کہ جس رات ہابیل کا قتل ہوا تھا اس وقت ۔۔۔
میں محض چند سال کا بچہ تھا ۔ بات سمجھ لیتا تھا ، پہاڑوں پر کھیلتا تھا اور انسانوں کو دور سے دیکھا کرتا تھا ۔میں نے نوحؑ کے اس دور کو بھی دیکھا ہے کہ جب وہ اپنی قوم کو تلقین کیا کرتے تھے اور جب وہ اپنی قوم کا حال دیکھ کر رویا کرتے تھے تو میں بھی انہیں دیکھ کر رویا کرتا تھا اور انہی دنوں ۔۔۔
میرا دل اللہ کی طرف مائل ہوا ۔میں نے موسیٰؑ کا وقت بھی دیکھا ہے ۔ انہوں نے مجھے تورات سکھائی تھی اور کہا تھا کہ ہامہ ۔۔۔ اگر تم عیسیٰؑ سے ملو تو انہیں میرا سلام دینا ۔اے محمد (ﷺ) ! پھر میں نے عیسیٰؑ کو بھی دیکھا اور انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ہامہ ۔۔۔
اگر کبھی تم محمد کو ملے تو انہیں میرا سلام دینا ۔عمر بن خطابؓ بتاتے ہیں کہ اس کی یہ بات سن کر نبی کریم ﷺ کی آنکھوں میں بھی ۔۔۔ آنسو آ گئے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ رہتی دنیا تک عیسیٰؑ پر سلامتی ہو اور اے ہامہ ۔۔۔
امانت پہچانے کی وجہ سے تجھ پر بھی سلام ہو ۔پھر ہامہ نے کہا کہ اے محمد (ﷺ) ! آپ میرے ساتھ وہی کیجیئے کہ جو موسیٰؑ نے کیا تھا (یعنی مجھے قرآن سکھائیں) ۔اور عمرؓ بتاتے ہیں کہ پھر نبیؐ نے اسے سات سورتیں سکھائیں (سورۃ واقعہ ، مرسلات ، نباء ، تکویر ، معوذتین اور سورۃ إخلاص)اور پھر اسے نصیحت کی کہ ہامہ ! کبھی کبھی ملنے آتے رہا کرنا ۔لیکن عمرؓ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد پھر نبی کریم ﷺ کا وصال ہو گیا اور ہمیں ہامہ کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں ۔اور یہاں پہنچ کر یہ واقعہ مکمل ہوتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ہامہ آج بھی کہیں موجود ہو ، میں نہیں جانتا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے پیرالیل میں ۔۔۔
ایک عجیب و غریب دنیا آباد ہے کہ جس کے متعلق ورچوئلی ۔۔۔
ہمیں کچھ پتہ نہیں ۔اور اسی دنیا سے تعلق رکھنے والا ایک اور جن ۔۔۔
حضرت سلیمانؑ کے دربار میں بھی رہا کرتا تھا ۔ ایک عفریت ۔النمل کا وہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جس میں جب حضرت سلیمانؑ نے اپنے دربار میں ایک سوال پوچھا ۔کہ تم میں سے کون ہے کہ جو ملکہ بلقیس کا تخت لے کر میرے پاس آئے گا ؟اور النمل میں آتا ہے کہ ’’قَالَ عِفْرِيتٌۭ مِّنَ ٱلْجِنِّ‘‘ یعنی جنات میں سے ایک عفریت نے کہا (النمل 27:39) ۔۔۔
کہ میں لاؤں گا ۔اس کے بعد کیا ہوا ؟ وہ تو ایک بڑا تفصیلی واقعہ ہے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ اس اندیکھی دنیا کے بارے میں یہاں پر ۔۔۔ یعنی اس آیت میں ۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی زبردست لیڈ دی ہے ۔۔۔کہ جو ہمیں اس دنیا کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہے ؟عفریت کا لفظ ۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے بالخصوص مینشن کیا ہے کہ جنات میں سے ایک عفریت بولا ۔کیا ہوتا ہے عفریت ؟ اور آگے چل کر اس نے ایسا کیوں کہا کہ سلیمان ! ۔۔۔ میں لاؤں گا بھی ایمانداری سے ۔آج رات ۔۔۔
ایک بہت ہی سپیشل قسط ریلیز ہونے والی ہے کہ جس میں آپ کو إن شاء اللہ ان تمام سوالوں کے جوابات ملیں گے اور آج ۔۔۔ جب میں آپ کو وہ تمام ڈیٹیلز دوں گا تو آپ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ اس عفریت نے ۔۔۔ حضرت سلیمانؑ کی زندگی میں کس قدر بڑا کردار ادا کیا تھا.