
ابو الشیخ الاصفہانی
دسویں صدی کی بات ہے ۔۔۔
کہ اصفہان میں ایک عظیم مسلمان سکالر رہا کرتے تھے ، ابو الشیخ الاصفہانی ۔ویسے تو ابو الشیخ کاغذ بنانے کا کام کرتے تھے لیکن جو بات انہیں خاص بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ۔۔۔
وہ ہر روز ایک چھوٹا سا کتابچہ تحریر کیا کرتے تھے ۔
ہر روز ۔
اور اپنی زندگی کے ساٹھ سال انہوں نے پڑھنے اور لکھنے میں صرف کیے ہیں ۔
ساٹھ سال کی تصانیف ۔۔۔ امیجن دیٹ ۔
(حوالہ تاریخ الإسلام و وفیات المشاہر والأعلام)
بہرحال ۔۔۔ ابو الشیخ اپنی ایک انتہائی قدیم کتاب ’’کتاب العجائب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ چین سے کچھ مسافر ۔۔۔
حجاج بن یوسف کے دربار میں آئے ۔۔۔ اور اسے اپنے سفر کے دوران ہوا ایک عجیب واقعہ سنایا ۔
انہوں نے بتایا کہ چین کے فلاں علاقے میں ایک ایسا مکان ہے ۔۔۔
کہ جہاں سے صرف سرگوشیاں اور باتیں کرنے کی آواز سنائی دیتی ہے لیکن باتیں کرنے والا کوئی جسم ۔۔۔
کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا ۔اکثر مسافر کہ جو راستہ بھٹک جاتے ہیں انہیں یہ آواز ۔۔۔
سرگوشیوں میں صحیح راستے کے متعلق راہنمائی کرتی ہے ۔حجاج بن یوسف کو یہ بات سن کر بہت تعجب ہوا اور اس نے چند لوگوں کی ایک مہم بھیجی اور انہیں کہا کہ سنو ۔۔۔تم اس جگہ پہنچ کر اونچی آواز میں راستہ پوچھنا ۔اور جونہی تمہیں کوئی جواب ملے فوراً ۔۔۔
آواز آنے والی سمت میں حملہ کر دینا ۔کئی مہینوں کے سفر کے بعد جب یہ لوگ اس مکان پر پہنچے ۔۔۔
تو انہوں نے ویسا ہی کیا کہ جیسی انہیں ہدایات دی گئی تھیں ۔اور جونہی انہیں بغیر کسی دھڑ کے آتی وہ آواز سنائی دی تو فوراً انہوں نے اپنی توجہ اس جانب کی ۔۔۔اور پتہ چلا کہ آواز تو ویران مکان کے اندر سے کہیں سے آ رہی ہے ۔ہمت کر کہ یہ لوگ مکان کے اندر بھی داخل ہو گئے لیکن اندر ۔۔۔ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا ۔اور اس مرتبہ پھر ایک آواز آئی کہ تم سے پہلے ۔۔۔ بہت سے یہاں آئے لیکن تم ۔۔۔
تم ہمیں کبھی دیکھ نہیں سکو گے ۔عرب سے آئے اِن لوگوں نے پوچھا کہ تم یہاں کب سے ہو ؟اُنہوں نے جواب دیا کہ تمہارے سالوں کے اعتبار سے تو ہمیں پتہ نہیں لیکن ۔۔۔
اس ملک کو ہم نے آٹھ بار اجڑتے ۔۔۔
اور آٹھ بار بستے دیکھا ہے ۔اس کے بعد یہ آواز مکمل طور پر خاموش ہو گئی اور یوں ۔۔۔ یہ لوگ اس پراسرار آواز کے راز کو حل کیے بغیر ہی عرب ۔۔۔
واپس چلے گئے ۔اپنے سے طور پر میں نے تانگ ڈائینیسٹی کے قدیم سکرولز کے ذریعے ۔۔۔
اس مکان کے متعلق جاننے کی کوشش کی بھی تھی لیکن ۔۔۔
حجاج بن یوسف کے زمانے یعنی آٹھویں صدی کا چائینہ ۔۔۔ کلچرل اعتبار سے بہت زیادہ بدل رہا تھا اور اس وقت کی حکومت ۔۔۔
یعنی تانگ خاندان بوسیدہ عمارتوں کو گرا کر ملک میں نئی تعمیرات کرتا چلا جا رہا تھا اور شاید تب ہی ۔۔۔
اس قدیم اور پراسرار مکان کے باسی اپنے صدیوں پرانے مسکن کو چھوڑ کر ۔۔۔ کب کے کہیں اور جا چکے ہوں ۔تاریخ کے اوراق سے آپ کے لیے ایک عجیب داستان ۔۔۔آگ کے ایک گرم ۔۔۔ اور خوبصورت الاؤ کے گرد بیٹھ کر.